Visitors

Wednesday, 17 September 2025

Daily Diary (DD) - Day 260 of 2025

1001hrs:

A momentum is developing as we approach the final 100 days of this year. 

I will also be travelling today. 

....

The following is an guest Urdu article written by the very energetic writer, broadcaster & activist Yusuf Ali Nashad; on the current scenario in what is sometimes described as the '3rd Pole' or the 'Roof of the World' viz. Gilgit Baltistan and the dangers of natural resource extraction from the territory:

Yusuf Ali Nashad - Gilgit GB

(صدائے حق)

 

گلگت بلتستان کے وسائل پر دست درازی      :                        ایک قومی سانحہ کی طرف اشارہ

 

پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے حال ہی میں ایک امریکی کمپنی کے ساتھ معدنی وسائل کے حوالے سے ایک اہم ایم او یو پر دستخط کیے ہیں، جس میں ایف ڈبلیو او بھی شامل ہے۔ اس معاہدے کے تحت بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قیمتی معدنی وسائل امریکہ کو فروخت کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے وعدے اور دعوے پچھلی کئی دہائیوں سے عوام سنتے آ رہے ہیں اور ان کا نتیجہ ہمیشہ عوام کی محرومی اور اشرافیہ کی خوشحالی کی صورت میں نکلا ہے۔

 

ماضی کے تلخ                           تجربات

 

تقریباً چونتیس برس قبل بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بلوچستان کے وسائل ملک کی تقدیر بدل ڈالیں گے۔ کہا گیا کہ قرضے اتر جائیں گے، خوشحالی آئے گی اور ملک ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوئے گا۔ لیکن عملاً ہوا یہ کہ قرضوں کا بوجھ کئی گنا بڑھ گیا، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی اور عام آدمی کی زندگی خطِ غربت سے نیچے گر گئی۔ البتہ اقتدار اور دولت پر قابض بالادست طبقے کی تجوریاں ضرور بھر گئیں۔ یہی تجربہ بار بار دہرا کر عوام کو خواب دکھانا دراصل استحصالی سیاست کا حصہ ہے۔

 

گلگت بلتستان کی منفرد                   اور حساس حیثیت
 

اس معاہدے کا سب سے سنگین پہلو گلگت بلتستان سے متعلق ہے۔ یہ خطہ آئینی طور پر پاکستان کا صوبہ نہیں، نہ ہی یہاں کے عوام کو قومی اسمبلی یا سینیٹ میں نمائندگی حاصل ہے، اور نہ ہی ووٹ کا حق دیا گیا ہے۔ 13 اگست 1948 کی یو این قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے جو مسئلہ کشمیر کے حل تک اسلام آباد کے انتظامی دائرے میں بطور امانت رکھا گیا ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں کسی حکومت یا ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ گلگت بلتستان کے وسائل پر قبضہ کرے یا بیرونی طاقتوں کو بیچے۔

 

عوامی            ردِعمل اور بڑھتا               ہوا                 غصہ

 

جیسے ہی ایم او یو کی خبر سامنے آئی، گلگت بلتستان میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ مختلف عوامی حلقے سراپا احتجاج ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جانیں قربان کر سکتے ہیں لیکن اپنے وسائل کو کسی کے حوالے نہیں کریں گے۔ یہاں کے عوام کے دل میں یہ زخم پہلے ہی موجود ہے کہ دہائیوں سے ان کے حقوق کو پسِ پشت ڈالا گیا ہے۔ نہ انہیں آئینی شناخت دی گئی، نہ ہی ان کی زمینوں اور وسائل پر ان کا اختیار تسلیم کیا گیا۔

 

محرومیوں کی ایک طویل داستان

 

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج تک گلگت بلتستان میں ایک میڈیکل کالج تک قائم نہیں کیا جا سکا۔ تعلیمی اداروں، جدید اسپتالوں اور بنیادی سہولتوں سے محروم عوام کو صرف وعدے سنائے گئے ہیں۔ irony یہ ہے کہ پاکستان کی 60 فیصد زرعی زمین گلگت بلتستان کے پانی سے سیراب ہوتی ہے، لیکن خود مقامی عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ سے دوچار ہیں۔ خاص طور پر سردیوں میں 22 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ عوام کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں۔ ایسے حالات میں معدنیات پر بیرونی قبضے کی کوشش عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

 

وسائل کی اصل ملکیت

 

گلگت بلتستان کے عوام واضح الفاظ میں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پہاڑ کی چوٹی سے لے کر دریا کی ترائی تک جو کچھ بھی ہے وہ انہی کا ہے۔ ان وسائل پر نہ اسلام آباد کا حق ہے اور نہ کسی بیرونی قوت کا۔ عوام کے مطابق ان کے وسائل پر قبضہ دراصل ان کے وجود اور شناخت پر قبضہ ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔


نتیجہ

 

یہ معاملہ صرف معدنی وسائل کا نہیں بلکہ ایک پورے خطے کے مستقبل اور شناخت کا ہے۔ اگر حکومتِ پاکستان نے عوامی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے ایسے معاہدے جاری رکھے تو یہ نہ صرف سیاسی بے چینی کو ہوا دے گا بلکہ خطے میں شدید مزاحمت اور بداعتمادی کو بھی جنم دے گا۔ ضروری ہے کہ حکومت گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے جائز حقوق دے، ان کی رائے کو تسلیم کرے اور ان وسائل پر ان کا حق مانے۔ 

بصورتِ دیگر، یہ معاہدے آنے والے کل میں قومی وحدت کے لیے بڑے چیلنج کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

..

An English translation of the above article will follow in due course....

....


No comments:

Post a Comment

Daily Diary (DD) - Day 260 of 2025

1001hrs: A momentum is developing as we approach the final 100 days of this year.  I will also be travelling today.  .... The following is a...