Visitors

Sunday, 9 November 2025

Daily Diary (DD) - Day 313 of 2025

1458hrs:

Countdown to end of 2025: 53 days

When I thought it couldn't get any worse, today's schedule was over 9 hours behind schedule! I couldn't get to sleep till beyond 0500hrs this morning (already 2 hours behind schedule) and woke just after midday.

....

Sardar Bahadur Ali Khan can probably be described as the pioneer of peaceful rights movement in Jammu Kashmir & Allied (areas) and his life deserves scrutiny to acknowledge his efforts. We will try and get more details on his struggle for land proprietary rights in due course:

.... 

Saturday, 8 November 2025

Daily Diary (DD) - Day 312 of 2025

1211hrs:

Countdown to end of 2025: 54 days

Marginally better today. Now just 6 hours behind schedule. I also got to sleep at around midnight last night, compared to 0400hrs on the previous night (or rather that morning).

....

I will continue publishing reviews as - rather than me having to explain myself to validate my 2 decades old research work - it is far more plausible for others to write reviews on how they have found me and my work. Here is an exchange on another medium today:

1) Whirling Dervish:

تنویر صاحب۔ آپ کا جذبہ بے شک سچا ہے۔

آپ کی لگن میں خلوص ہے اور آپ ایک ایسے سچ کا علم اٹھائے ہوئے ہیں جس کی روشنی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری قوم نے اپنی اجتماعی سمت ہمیشہ معاہدات کے سائے میں طے کی ہے۔

 1846

کے معاہدۂ امرتسر سے لے کر آج تک ہم اپنے فیصلوں کے مالک کم اور دستاویزوں کے پابند زیادہ رہے ہیں۔

یہاں آزاد کشمیر کی سرزمین پر، جب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جیسے وسیع عوامی اجتماع لاکھوں کے مجمع کے باوجود یہ جرات کوئی نہیں کر سکا کہ وہ حکومتِ آزاد کشمیر اور حکومتِ پاکستان کے سامنے صرف اتنا کہہ سکے کہ کم از کم آر پار کے کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملنے دو۔ تو وہاں کسی فردِ واحد کی صدائے حق خواہ کتنی ہی خالص کیوں نہ ہو، بھلا کب سنی جائے گی؟

میں یہ بات مایوسی کے لیے نہیں کہہ رہا اور نہ ہی آپ کے جذبے پر کوئی تنقید مقصود ہے۔ میں تو صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہاں کے معروضی حالات سیاسی، سماجی اور نفسیاتی اس قدر گہرے جال میں الجھے ہیں کہ سچ بولنے والا اکثر خود ہی سوال بن جاتا ہے۔

اس خطے میں صداقت کی آواز اکثر جذبات کی گرد میں دب جاتی ہے اور مفاد کی سیاست نے ضمیر کی حرمت کو گراں سمجھ لیا ہے۔ تاہم میں یہ کہنا بھی لازمی سمجھتا ہوں کہ سچائی کی شمع اگرچہ کمزور دکھائی دیتی ہے مگر بجھتی نہیں۔

تاریخ میں ہر بڑی تبدیلی ایک ایسے ہی خاموش اور تنہا چراغ سے شروع ہوئی ہے۔ آپ کی جدوجہد شاید فی الحال اثر نہ دکھا سکے مگر وہ آنے والے شعور کی بنیاد ضرور رکھے گی۔ وہ شعور جو کسی معاہدے یا اجازت نامے کا محتاج نہ ہو بلکہ ضمیر کی خودمختار گواہی سے جنم لے۔

 ۔۔۔۔ 

2) Response by Yasin Anjum:

بیشک۔۔۔

اصل میں تنویر صاحب نے وطن کی محبت میں اپنی شاندار زندگی روشن مستقبل کی ہی قیمت ادا نہیں کی، بلکہ یو کے کی اس زندگی کو خیر آباد کہہ کر ہمیشہ کیلئے اپنی مٹی کے ساتھ جڑ گئے۔۔

 جس یو کے، یورپ اور یو ایس اے کیلئے ھمارے بڑے بڑے قد کے سیاسی، مزاحمتی رہبروں نے فائلیں بنوایئں۔۔ جان پر کھیل کر ڈنکی لگائ۔۔۔

پتہ نہیں کیا کیا پاپڑ بیلے۔۔ اور وہاں جا کر پناہ لی۔۔۔ 

صرف اپنے اور اپنے بچوں کی خوشحال زندگی کی خاطر۔۔۔۔۔۔۔

تنویر صاحب اس زندگی کو چھوڑ کر یہاں آ بسے۔۔

 میرے نزدیک تنویر صاحب کے اس خلوص اور محبت کی نہ کوئ قیمت ھے اور نہ کوئ بڑے سے بڑا لیڈر باہر کی پرآسائیش ماحول میں بیٹھ کر انکے برابر آ سکتا ھے۔۔

تنویر صاحب سے میری پہلی ملاقات 2009 میں یا 10 میں مظفرآباد میں ھوئ تھی جہاں ھم 22 اکتوبر یوم سیاہ منا رہے تھے۔۔۔

 تب سے آج تک نہ انکے جذبات میں کمی دیکھی۔۔ نہ مسلسل جدوجہد میں کوئ فرق آیا ۔۔۔ نہ پایہ استقامت میں لرزش آئ۔۔

تنویر صاحب کی یہ خوبی ھے کہ جو سوچتے ہیں اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔۔۔

۔۔

دوسری بات جو دوست انھیں یہ کہتے ہیں کہ اکیلے کیوں ہر کام کرتے ہیں؟؟؟؟

 اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ انھیں انکے مزاج کا ایک بھی بندہ نہیں مل سکا۔۔

ھم سارے لوگ باتیں زیادہ کرتے ہیں۔۔ تجزیے کرتے ہیں، دعوئ کرتے ہیں۔۔

اور زیادہ تر یہی کہتے ہیں کہ ھمیں اس وقت یہ کرنا چاہیے۔۔ وقت یہ کہتا ہے۔۔ اور پھر اپنے ذاتی معاملات میں مصروف ہو جاتے ہیں۔۔

جبکہ تنویر صاحب جو سمجھتے ہیں کہ یہ کرنا چاہیے۔۔ وہ کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔

کمٹمنٹ کا بہت پکا انسان ھے۔

۔۔۔۔

(1) Response (in turn) by Whirling Dervish:

میں اگرچہ تنویر صاحب کو ذاتی طور پر نہیں جانتا مگر میں نے ان کی تحریروں اور طرزِ گفتگو سے یہ بخوبی محسوس کیا ہے کہ وہ نہایت بلند پایہ فکری انسان ہیں۔ ان کی سوچ میں گہرائی ہے۔

 ان کے لہجے میں خلوص اور ان کے جذبے میں اپنی مٹی سے سچی وابستگی۔ وہ اپنی ریاست کی بات کرتے ہیں۔ اپنے ملک اور اپنی قوم کی بات کرتے ہیں اور اپنی ریاست و قوم کی بات کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔

یہ وہ وصف ہے جو انسان کو بڑے لوگوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔ ایسے لوگ کسی جماعت یا مصلحت کے تابع نہیں ہوتے۔ یہ لوگ تاریخ کے تابع ہوتے ہیں۔

وہ تاریخ جو قوموں کے ضمیر میں بیداری کی صورت جاگزیں ہوتی ہے۔

۔۔۔۔

(2) Response (in turn) by Yasin Anjum:

گذشتہ 15 سال کا گواہ میں خود ہوں۔۔ موسم کی سختی،  اپنوں کے طنز کے نشتر اور قابض قوت کی ایجنسیوں کے جبر کے سامنے یہ بندہ نہتا کھڑا ھے بلکہ ڈٹ کر کھڑا ھے۔

۔۔۔۔

(1) Response (in turn) by Whirling Dervish:

یہ سن کر بے حد خوشی ہوئی۔ ہر عہد کی تاریخ کچھ ایسے لوگوں کے نام سے روشن ہوتی ہے جو وقت کے طوفانوں کے سامنے نہتے مگر ثابت قدم کھڑے رہتے ہیں۔ جن کی خاموش جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے حوصلے اور خودی کا استعارہ بن جاتی ہے۔

 وقت چاہے جتنا سنگ دل ہو مگر ایسے کردار تاریخ کے سینے میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، کیونکہ سچائی کے راستے پر چلنے والا کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ خود وقت کی گواہی ہوتی ہے۔

۔۔۔۔

....

There was also some exchange (earlier) in English between myself and Whirling Dervish today:

W D:

Tanveer Sahib, I sincerely thank you for graciously sharing my humble piece of writing on your distinguished Blogspot.

I had the pleasure of visiting your blog, and I must say, it is both intellectually engaging and aesthetically captivating.

Keep up the good work.

۔۔۔۔

My Response:

I will keep up the 'good work' until the 31st of December 2025. Then I may have to retire because the public is not willing to grasp the essence and mechanics behind my independent research work.

۔۔۔۔

W D (In Response):

Tanveer Sahib, your passion is undoubtedly sincere, your devotion filled with purity, and you carry within you a truth whose radiance is granted to but a few. Yet it is also a fact that our nation has always charted its collective direction under the shadow of agreements. From the Treaty of Amritsar in 1846 to this very day, we have been less the masters of our own decisions and more the captives of written accords.

Here, in the land of Azad Kashmir, when even a vast public movement — like the Joint Awami Action Committee (JAAC), with hundreds of thousands gathered in unison — lacks the courage to say to the governments of Azad Kashmir and Pakistan, “At the very least, let the people of both sides of Kashmir meet one another,” then how can the solitary cry of a single individual, no matter how pure, ever hope to be heard?

I say this not to sow despair, nor as a criticism of your conviction, but simply to point out that the objective conditions of this region — political, social and psychological — are entangled in such a dense web that anyone who dares to speak the truth often becomes a question himself. In this land, the voice of honesty is too often buried beneath the dust of emotions, and the politics of interest has come to find the weight of conscience unbearable.

Yet it must also be said that the flame of truth, though it may appear faint, never truly dies.

Every great transformation in history has begun from just such a silent and solitary lamp. Your struggle may not show its impact for now, but it will surely lay the foundation for a future awakening — an awakening not dependent on treaties or permissions, but born from the sovereign testimony of conscience itself.

۔۔۔۔

Whirling Dervish also wrote some Urdu notes addressed to me:

تنویر صاحب۔ میں آپ کو ذاتی طور پر تو نہیں جانتا مگر فیس بُک پر آپ کی چند ویڈیوز اور تحریریں ضرور دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ 


خاص طور پر شاردا پیٹھ پر آپ کی تحقیق نے دل پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔

Sharda Peeth

آپ نے ایک ایسے علمی و تہذیبی ورثے کو آواز دی ہے جو صدیوں سے خاموش تھا۔ اس خدمتِ علم و روح کے لیے میں دل سے آپ کو سراہتا ہوں۔ 

میری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اگر آپ اپنی توجہ شاردا پیٹھ والے  منصوبے پر مرکوز رکھیں۔ حکومتِ آزاد کشمیر اور حکومتِ پاکستان کے محکمۂ آثارِ قدیمہ سے رابطہ قائم کریں۔ ان ماہرین کو اپنے ساتھ شریکِ فکر بنائیں جو تاریخ و تہذیب کے نبض شناس ہیں۔

اسی طرح مغرب میں جہاں آپ کی علمی پہچان پہلے ہی قائم ہے وہاں کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور دانشوروں کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائیں۔

   اگر آپ کی کوششوں سے شاردا پیٹھ کی رونقیں ایک بار پھر بحال ہو جائیں۔ ایک ایسا ٹورزم مقام ہو جہاں زائرین محققین اور عقیدت مند امن و علم کی روشنی حاصل کرنے آئیں تو یہ نہ صرف آزاد کشمیر کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک عظیم روحانی احیاء ہوگا۔

اس سے ہمارے خطے کا ایک مثبت، روشن اور مہذب پیغام دنیا بھر میں پہنچے گا کہ ہم علم، رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کے امین ہیں۔


یہ کام بظاہر مشکل ضرور ہے مگر اگر قدرت نے آپ کے مقدر میں یہ خدمت لکھ دی ہے تو یقین مانیے یہ اس صدی کا سب سے بڑا اور پائیدار علمی کارنامہ ثابت ہوگا۔


میری گزارش فقط اتنی ہے کہ آپ میری اس رائے پر غور ضرور کریں شاید تاریخ کی روح اسی لمحے آپ سے کوئی عہد لینا چاہتی ہو۔

۔۔۔۔

A point to note on my behalf:

Whirling Dervish then continues to write on the theme of Sharda Peeth, although I have explained to him that through 2 decades of numerous scientific 'trial and error' processes it is absolutely clear that the AJK Government (or any of its departments) or for that matter the Government of Pakistan, or even the Government of India have little incentive (yet) to break the mental stranglehold of the British infused (or exacerbated) 2 nation  theory. 

Reviving humanity with all its civilisational strength amassed through millennia, is a responsibility of the 'Riyasati' Baashinda, be he or she a Muslim, Hindu, Sikh, Buddhist, Christian, Jain or even atheist or agnostic. Sharda will re-emerge as a pre-eminent global centre of learning and the 'Riyasati' (descendant of the State Subject as per #SSR1927 ) has to take full responsibility for reviving religious/cultural/ideological harmony in this most precious (and fiercely contested) territory in the world.

..

Whirling Dervish writes,

Sharda Peeth

     شاردا پیٹھ ایک تاریخی مقام ہے۔


ایک گم شدہ علمی ورثے کی علامت بھی ہے جس نے صدیوں تک علم و تحقیق کی روشنی کو اپنے اندر سنبھال رکھا تھا۔ اگر ہم اس ورثے کو دوبارہ زندہ کریں اور اسے ایک بین الاقوامی سیاحتی و علمی مرکز کی شکل دیں تو یہ نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک نادر ثقافتی اور فکری تحفہ ثابت ہو سکتا ہے۔

 شاردا پیٹھ کی تحقیقی اور مرمتی بنیادیں مضبوط کی جائیں۔ مقامی حکومتوں اور محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین کے ساتھ اشتراک کیا جائے تاکہ عمارت آثار اور تاریخی ورثہ محفوظ رہیں۔

ساتھ ہی مغربی اور بین الاقوامی ماہرینِ آثار قدیمہ تاریخ دان اور محققین کی توجہ بھی اس منصوبے کی جانب مبذول کرائی جائے۔ یہ نہ صرف عالمی سطح پر تحقیق کی راہیں کھولے گا بلکہ خطے کی ساکھ کو بھی روشن کرے گا۔

۔۔

دوستو اور ساتھیو آداب۔

میری گزشتہ تحریروں کا سلسلہ یہاں تک پہنچا تھا کہ ہم نے پنڈت کلہن کی راج ترنگنی سے شاردا پیٹھ اور شاردا دیوی تک کی فکری و تاریخی جہتوں پر آغاز گفتگو کی کوشش کی تھی۔ آج میں اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی بات کو نئے زاویوں سے جاری رکھوں گا۔

۔۔

پہاڑوں کے دامن میں کبھی کوئی صدا گونجتی تھی۔ ندیوں کے سنگیت میں کوئی ایسا ترنم تھا جو دل کو بےخودی کی راہ دکھاتا تھا۔ وہ وادی جسے آج ہم نیلم کہتے ہیں کبھی صرف قدرت کی حسین گود نہیں تھی وہ علم وجدان فلسفہ اور روحانیت کی جنم بھومی تھی۔

 اسی وادی کے سینے پر شاردا پیٹھ کا وہ درخشاں چراغ جلتا تھا۔ جس کی لو سے برِصغیر کے علم کی راتیں روشن ہوئیں جس کے در و دیوار سے فلسفے نے سانس لی اور جس کی دھول سے دنیا کے سب سے بڑے عالموں نے اپنے زخموں کو علم کے مرہم سے بھرا۔

آج جب ہم اس کا نام لیتے ہیں تو ایک خاموشی دل میں اتر جاتی ہے جیسے کسی کھنڈر کے پیچھے سے ماضی کی روح سرگوشی کر رہی ہو کہ میں وہ درسگاہ تھی جہاں علم بولتا تھا جہاں روح سوچتی تھی اور جہاں انسان اپنے آپ کو پہچاننے آتا تھا۔

۔۔

وادیِ نیلم کی شام اُتر رہی ہے۔ کشن گنگا کے پانیوں میں چاندنی لرز رہی ہے اور ہوا میں کسی پرانی کتاب کے ورقوں کی خوشبو گھل رہی ہے۔ ویران مندر کی دیواروں سے صدیوں پرانی پکار اب بھی سنائی دیتی ہے۔ کب لوٹو گے میرے فرزندو یہی ہے شاردا پیٹھ۔

 وہ جگہ جہاں علم نے جنم لیا جہاں روح نے سوچنا سیکھا جہاں انسان نے پہلی بار اپنے خالق سے مکالمہ کیا۔

یہ وہ جگہ ہے جو صرف پتھر نہیں ایک فکری آستانہ ہے۔ جہاں لفظ عبادت تھے اور فکر ریاضت۔ جہاں سوال کرنا گناہ نہیں بلکہ عبادت تھی۔ 

شاردہ پیٹھ صرف ایک مندر نہیں تھا یہ کشمیر کی روح تھی جو اب مٹی میں چھپ کر بھی روشنی دیتی ہے۔

۔۔

تاریخ کے مطابق شاردہ پیٹھ کی بنیاد غالباً اشوکا اعظم کے دور تیسری صدی قبل مسیح کے بعد رکھی گئی۔ اشوکا نے جب بدھ مت کو اپنایا تو اس نے کشمیر میں کئی تعلیمی و روحانی مراکز قائم کیے۔ انہی مراکز میں سے ایک نے بعد میں شاردا پیٹھ کی شکل اختیار کی۔ یعنی اشوکا نے بیج بویا جس سے بعد کے صدیوں میں علم کا ایک دیودار اگا۔

 اس سے پہلے یہ وادی مختلف دراوڑی اور آریائی اثرات کا گہوارہ تھی۔ یہاں قدیم ناگ قبائل اور رشی روایتیں موجود تھیں جو قدرت اور وجدان کے علم میں یقین رکھتے تھے۔


یوں شاردہ پیٹھ دراصل ان تمام روایتوں کا سنگم بنی۔


ایک ایسی جگہ جہاں وید اپنشد اور بدھ مت ایک ہی سانس میں پڑھے جاتے تھے۔

 تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ شاردا پیٹھ کی تعمیر غالباً آٹھویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ کچھ مؤرخین اسے راجہ لالیتادتیہ مختاپیڈا کرکوٹا خاندان کے عہد سے منسوب کرتے ہیں جبکہ کچھ اس کے آثار دت خاندان کے ابتدائی دور میں دیکھتے ہیں۔

لالیتادتیہ کا زمانہ کشمیر کے سنہری ادوار میں شمار ہوتا ہے۔ وہ بادشاہ جس نے چین تبّت ترکستان اور وسطی ایشیا تک کشمیر کی علمی پہچان پہنچائی۔ شاردہ پیٹھ کی عمارت شیو، وید، اور بودھ اثرات کا حسین امتزاج تھی۔ اس کی دیواروں پر دیوی کی آکرتی کندہ تھی ،اس کے دروازوں پر علم کے سنسکرت اشلوک اور اس کے صحن میں ندی کا پانی بہتا تھا جہاں شاگرد اپنے قدم دھو کر درس کے لیے بیٹھتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کتاب صرف کاغذ پر نہیں بلکہ انسان کے دل پر لکھی جاتی تھی۔

۔۔

دیوی شاردا جسے شمالی ہند میں سرسوتی کہا جاتا ہے۔ ویدوں میں علم کلام اور عقل کی دیوی کے طور پر یاد کی گئی۔ روایت ہے کہ جب دیوی ستی کا جسم وِشنو کے چکر سے بکھرا تو اس کا دایاں ہاتھ وادی کشمیر کے اسی مقام پر گرا اور یوں یہ زمین شکتی پیٹھ بن گئی یعنی وہ جگہ جہاں دیوی کی توانائی اترتی ہے۔

مگر شاردہ پیٹھ کی معنویت محض مذہبی نہیں تھی بلکہ روحانی و فلسفیانہ تھی۔ یہ وہ مقام تھا جہاں روح کی زبانی علم بولتا تھا۔

شاردہ پیٹھ صرف ایک مندر نہیں تھا یہ ایک جامعہ تھی۔ یہاں سنسکرت گرامر نیّائے (منطق) ویدانتا یوگ بودھ درشن اور شیو آگم کا علم پڑھایا جاتا تھا۔ یہاں وہ مکالمے ہوتے تھے جنہوں نے بعد میں کشمیر شیوازم کو فلسفے کی بلند ترین سطح پر پہنچایا۔

یہاں سے وہ شاردا لِپی پیدا ہوئی جس میں بعد میں سینکڑوں سنسکرت متون وید اور بدھ شاستر تحریر کیے گئے۔ یہی لِپی بعد میں پنجاب گندھارا تبت اور مشرقی ایشیا تک پہنچی۔

راج ترنگنی کے مصنف کالہن نے لکھا کہ “کشمیر میں علم کی دیوی خود زمین پر اتری اور اس کا مسکن شاردا پیٹھ ہے۔ نام “شاردا” بذاتِ خود دیوی شاردا علم و حکمت کی دیوی سے منسوب ہے جو ہندو مت میں ماتا سرسوتی کا روپ ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اُس دیوی کے دایاں ہاتھ یا انگُشت اُس مقام پر گِرا تھا اسے مہا شکتی پیٹھ میں شمار کرنا بھی اسی روایت کی بنیاد پر ہے۔

 یعنی اس علمی مرکز نے ابتدا میں عبادت گاہ کا روپ اختیار کیا تھا پھر علم کا منارہ بن گیا تھا۔

۔۔۔ ۔

چینی راہب ہیون تسانگ

(Xuanzang)

فاہیان اور چہ مَنگ نے اپنی سیاحت کے دوران کشمیر کی علمی فضا کا تذکرہ بڑے احترام سے کیا۔ انہوں نے لکھا کہ یہاں

 “علما، فلاسفہ، اور مناظرہ کرنے والے راہب پہاڑوں میں ایسے بستے ہیں جیسے دیوتا بادلوں میں۔”

 اسی زمانے میں ایک کشمیری فلسفی کمار جیوا جن کا تعلق کشمیر و ختن کے خطے سے تھا، بدھ مت کی تعلیمات لے کر چین پہنچے جہاں انہوں نے مہایان سُوتراؤں کا چینی زبان میں ترجمہ کیا۔ یوں کشمیر کا علم چین کی روح میں اتر گیا۔

چینی بدھ مت جسے “چان” کہا جاتا ہے اور بعد میں زین

Zen Buddhism

بنا۔اسی شاردہ پیٹھ کے علمی سلسلے سے متاثر ہوا۔

  چینی سیاح ہیون تسانگ

(Hiuen Tsang and Xuanzang are different spellings for the same person)

اور فاہیان

 (Fa-Hien)

  نے اپنی روداد میں کشمیر کی علمی عظمت کا بہت ذکر کیا ہے۔ ہیون تسانگ لکھتا ہے یہاں علم کی ایسی خوشبو ہے جو برف کے پہاڑوں سے نکل کر چین تک پہنچتی ہے۔ یہ سیاح بدھ مت کے ماننے والے تھے لیکن انہوں نے دیکھا کہ کشمیر میں علم مذہب سے ماورا ہو چکا ہے۔

یہاں مناظر شیو فلسفہ اور بدھ ازم سب ایک دوسرے کے ساتھ سانس لیتے تھے۔ انہی زائرین نے یہ علم چین تبت اور وسط ایشیا تک پہنچایا۔ یہی سے کمار جیوا جیسے فلسفی پیدا ہوئے جنہوں نے بدھ مت کے مہایان سوترا کو چینی زبان میں منتقل کیا۔ یہ محض ایک مندر نہیں بلکہ ایک عالمی فکری مرکز تھا۔

یہاں سے نکلنے والا علم وسط ایشیا کی خانقاہوں چین کی یونیورسٹیوں اور عرب کے مترجمین کے ذریعے بغداد تک پہنچا۔ شاردا پیٹھ کا اثر اتنا وسیع تھا کہ بعد میں سنسکرت رسم الخط کو شاردا لِپی کہا جانے لگا جو آج بھی تبت اور لداخ کے قدیم مخطوطوں میں محفوظ ہے۔ یہ علم کا ایک ایسا سفر تھا جو نیلم کی وادی سے نکل کر دنیا کے فکری دریاؤں میں بہہ گیا۔

۔۔


Daily Diary (DD) - Day 313 of 2025

1458hrs: Countdown to end of 2025: 53 days When I thought it couldn't get any worse, today's schedule was over 9 hours behind schedu...