A Journey in Jammu Kashmir & Allied areas (JKA)............................ from Subject to Citizen .........autocracy to democracy .........Dogra Raaj to Awaami Raaj .........1947 CE to........................... #WhiteFlags #Neutrality #WaterManagement #MirpurtoLondonviaCentralAsia
Visitors
Thursday, 27 November 2025
Daily Diary (DD) - Day 331 of 2025
Wednesday, 26 November 2025
Daily Diary (DD) - Day 330 of 2025
Tuesday, 25 November 2025
Daily Diary (DD) - Day 329 of 2025
اسٹیٹ سبجکٹ کیا ہے؟
قانون میں جہاں کشمیر کی زمین ڈومیسائل اور شہریت دینے کا طریقہ کار طہ کیا گیا ہے وہاں خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزاء کا بھی تعین ہے۔
جو افراد غیر منقولہ نجی یا سرکاری املاک کے غیر قانونی قبضے یا خرید و فروخت میں ملوث پائے گئے انہیں 10 سال قید اور جرمانے کی سزاء ہو گی ۔
اسٹیٹ سبجکٹ ہماری ریاست کی تاریخ اور کلچر کا خوب صورت باب ہے ۔ ڈوگرہ حکمران کو یہ خدشہ ہوا کہ خوش حال ریاست میں باہر سے آنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
حقیقی ریاستی باشندے اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے ۔
چناں چہ 20 اپریل 1927ء کو قانونی دستاویز نمبر 44َ نمبر I-L/84 نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کی عبارت درجہ ذیل ہے ” سٹیٹ سبجیکٹ کی ہس ہائنس مہاراجہ بہادر ( وائس پرائیویٹ سکریٹری چھٹی نمبری 2354 مورخہ 31 جنوری 1927 محکمہ مال ممبر کونسل) عوام الناس پر اطلاق کی منظوری دیتا ہے “۔ 1935ءمیں پونچھ پر قبضے کے بعد”سٹیٹ سبجیکٹ کی تعریف ریاست پونچھ کےلئے نوٹیفکیشن“ کے عنوان سے ایک دوسرے نوٹیفکیشن کے ذریعے نافذ کیا گیا۔
اپنی نوعیت میں یہ دنیا کا منفرد قانون ہے جہاں ریاست کے ہر شہری کو درجہ بندیوں میں تقسیم کر کے اس کےحقوق کو محفوظ کیا گیا۔۔۔
(1)
شہری درجہ اول۔۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ایسے تمام افراد جو مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور حکومت کے آغاز سے قبل جموں کشمیر میں پیدا ہوئے یا رہائش پذیر تھے اور ایسے تمام افراد جو ”بکرمی “یا” سموت“ کلینڈر کے مطابق1942 سے قبل جموں کشمیر میں آباد ہوئے اور مستقل سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں، درجہ اول کے شہری کہلائیں گے۔
بکرمی“ یا ”سموت“ ہندی کلینڈر عالمی طور پر رائج عیسوی کلینڈر سے 57 سال پہلے کا ہے۔ بکرمی یا سموت کلینڈر کے مطابق 1942کا مطلب 1885ء سمجھا جائے۔
(2)
شہری درجہ دوم۔۔۔۔ ایسے افراد جو بکرمی یا سموت سال 1942 سے 1968 (1885ءسے 1911ء) کے دوران ریاست میں آباد ہوئے اور غیر منقولہ جائیداد خرید کر مستقل رہائش اختیار کی وہ باشندہ ریاست درجہ دوم کہلائیں گے۔
(3)
شہری درجہ سوئم۔۔۔۔درجہ اول اور دوم کے علاوہ مستقل رہائش پذیر تمام افراد جنہوں نے رعیت نامہ یا اجازت نامہ
کے ذریعے غیر منقولہ جائیدادخریدی، ووہ دس سال کی مستقل رہائش کےبعد باشندہ ریاس ت درجہ سومکہلائیں گے۔
(4)
شہری درجہ چہارم۔۔۔۔۔۔ ریاست میں رجسٹر ہونے والی ایسی کمپنیاں جن سے ریاستی حکومت کے مالیاتی مفادات وابستہ ہوں یا حکومت کے مالی فائدے کا باعث بن سکیں یا جن کمپنیوں کے مالیاتی استحکام سے حکومت مطمئن ہو، ایسی کمپنیوں مہاراجہ ریاست خصوصی حکم کے تحت باشندہ ریاست درجہ چہارم قرار دے سکیں گے۔
۔۔
شہریوں کو درجات میں تقسیم کرنے کے فائدے و نقصانات کی وضاحت اسی نوٹیفکیشن کے اختتامی حصہ میں چار خصوصی نوٹ کے ذریعے کی گئی۔
(1)
ریاست کی اسکالر شب اور زرعی زمین یا تعمیراتی مکانات کے مقاصد ، اور ریاستی ملازمت میں سٹیٹ سبجیکٹ درجہ اول کو درجہ دوم اور سوم پرترجیح حاصل ہوگی۔
(2)
سٹیٹ سبجیکٹ کے تمام درجات کے حامل افراد کی اولاد بھی متعلقہ درجہ بندی کے لحاظ سے ریاستی باشندہ ہوں گے۔ مثلا اگر الف سٹیٹ سبجیکٹ درجہ دوم ہو تو اس کی پوتے پڑ پوتے بھی درجہ دوم سٹیٹ سبجیکٹ کا حامل ہوگا۔ وہ درجہ اول نہیں ہو سکتا۔
(3)
بیوہ یا بیوی کو سٹیٹ سبجیکٹ کا وہی درجہ ملے گا جو اس کی شوہر کو حاصل ہوگا ، اگر وہ ریاست کے اندر لمبے عرصے کے لئے رہے اور ریاست نہ چھوڑے۔
(4)
سٹیٹ سبجیکٹ کی انٹر پری ٹیشن اور حوالہ نوٹیفیکیشن میں دی گئی تعریف اور قانون کے مطابق عمل در آمد ہوگی تاہم اسے دس سال کے دوران تمام ریاستی قوانین کی پاسداری کرنا ہوگی۔ اجازت نامہ حاصل کرنے کے چھ ماہ کے اندر اندر اسے رہائشی جائیداد خریدنا ہوگا۔ورنہ اجازت نامہ زائد المعیاد ہو جائے گا، جس کی تجدید کروانی پڑے گی۔
اجازت نامہ کے حصول اور رہائشی جائیداد خریدنے کے دس سال بعد اسے ہر صورت میں باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اسکی رہائشی جائیداد ریاست کی ملکیت میں چلی جائیگی۔ اگر دس سال کے دوران وہ باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ حاصل نہ کر سکا تو جائیداد کی فروخت کےلئے اسے چھ ماہ کی مہلت مل سکتی ہے۔
۔۔
1947
ء تقسیم کشمیر کے بعد تینوں حصوں میں یہ قانون نافذ رہا۔ جعلی باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جاری ہونے کی تحقیقات اور تنسیخ کےلئے ”آزاد جموں و کشمیر جعلی باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ تنسیخ ایکٹ1971ءجاری کیا گیا تھا۔ لیکن 25جون 1980ءکو آزاد کشمیر میں باشندہ ریاست کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لئے ڈوگرہ ایکٹ کو ہی من و عن نافذ اور رولز بنائے گئے تو 1971 کا ایکٹ ختم ہو گیا۔
1980
کے ایکٹ میں کشمیرکونسل کو اختیار دیا گیا کہ وہ اس ایکٹ کی روشنی میں قانونسازی کر سکتی ہے۔
غیر قانونی طریقے سے یا جعل سازی کر کے حاصل کئے جانے والے باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ یا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی تحقیقات اور انکوائری کا طریقہ کار وضع کیا گیا اور غیر قانونی طور پر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے افراد کےلئے سزائیں تجویز کی گئیں۔
آزاد جموں کشمیر میں “سٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ” نافذ ہونے کے بعد غیر ریاستی خاتون ریاستی شہری سے شادی کرنے کی صورت میں درجہ اول کی شہری بن سکتی ہے لیکن کوئی بھی غیر ریاستی مرد کسی بھی صورت درجہ اول کا شہری نہیں ہو سکتا۔
البتہ ریاستی خاتون اگر کسی غیر ریاستی شخص سے شادی کرتی ہے تو اسے اس ریاست کی شہریت بچانے کےلئے اسی ریاست میں رہنا پڑے گا۔ اگر وہ بیرون ریاست منتقل ہوتی ہے تو پھر وہ شہریت کا حق کھو دے گی۔ اور محض وراثتی جائیداد کی حقدار ٹھہرے گی۔ تاہم وراثتی جائیداد کو اپنی اولاد کو منتقل نہیں کر سکے گی بلکہ اسے فروخت کرنے کا اختیار حاصل ہوگا جو ریاستی باشندہ ہی خرید سکتا ہے ۔
اگرریاستی خاتون کسی غیر ریاستی شخص کے ساتھ شادی کرنے کے بعد ریاست ہی میں رہائش اختیار کرتی ہے تو اس کے خاوند کو تیسرے درجے کا شہری بننے کےلئے ایک طویل راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ جو قانون کی موجودگی کے باوجود تقریباً ناممکن ہے۔
ایسی صورت میں اس خاتون کی اولاد بھی اس کے خاوند کی طرح تیسرے درجے کی شہریت کی ہی حامل رہے گی۔
غیر ریاستی خاتون بھی شوہر کے انتقال کے بعد اگر ریاست سے مستقل سکونت ترک کرتی ہے تو اسکی شہریت ختم ہو جائیگی۔ البتہ اگر وہ مستقل سکونت ترک نہیں کرتی تو وہ باشندہ ریاست اسی درجہ پر رہے گی جس درجہ پر اسکا خاوند باشندہ ریاست تھا۔
۔۔
رولز کے مطابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جاری کرے گا ۔
درخواست گزار کو، درخواست متعلقہ دستاویزات کے ساتھ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوں گی۔وہ تمام دستاویزات کی تصدیق کے بعد درخواست ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ارسال کرے گا۔ جو باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔
درخواست مسترد ہونے کی صورت میں تیس ایام کے اندر حکومت کو اپیل کی جاسکتی ہے۔
ریاستی زمین کی خریدوفروخت اور شہریت کے لیے اتنے سخت قوانین کی موجودگی میں راولاکوٹ اور مظفر آباد میں قطعہ آراضی کا آلائٹ منٹ ہونا دیدا دلیری کی انتہاء ہے ۔ایسا کرنے والوں کو سخت سزائیں نہ دی گئیں تو آزاد کشمیر کو کراچی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، جہاں جس کی مرضی جس جگہ پر قبضہ کر لے یا جو جتنا طاقتور ہے اتنا بڑا قطعہ آراضی قبضہ کرے۔ آلائٹ منٹ تو منٹوں میں ہو جاتی ہے ۔
۔۔۔۔
....
Kuldeep Pandita has much more to write and convey to his brethren across the LOC:
#rudranotes
The Convergence of Philosophies in Kashmir
The Kashmir Valley, nestled in the Himalayas, has long been a cradle of spiritual and philosophical traditions. The region's unique cultural landscape has been shaped by the interplay of diverse influences, including the indigenous Sanatan Dharma, Buddhism and Islam.
This essay explores how the Sanatan and Islamic philosophies have converged in the collective consciousness of Kashmir, giving rise to a distinct spiritual tradition that embodies the principles of both.
As aptly put, "Sanatan is all about what is and Abrahamic is all about what is not." This dichotomy highlights the fundamental difference between the two philosophical traditions. Sanatan Dharma, with its emphasis on the eternal and universal principles, focuses on the inherent nature of reality, the interconnectedness of all things and the cyclical nature of time. In contrast, Abrahamic religions, with their linear view of time and emphasis on commandments and prophetic revelations, often define themselves by what they are not, rather than what they are.
The Sanatan Dharma, with its roots in the Vedic period, has been an integral part of Kashmir's cultural identity. The valley has been a centre of Shaivism, particularly the Trika school, which emphasizes the recognition of the ultimate reality as the union of Shiva and Shakti. This philosophy, expounded by Abhinavagupta and other Kashmiri scholars, emphasizes the importance of self-realization and the recognition of the divine within.
The advent of Islam in Kashmir in the 14th century brought about significant changes to the region's spiritual landscape. Sufism, with its emphasis on the inner dimension of faith and the pursuit of spiritual growth, resonated with the existing Sanatan traditions. The Sufi concept of Wahdat al-Wujud (Unity of Being) found echoes in the Trika school's emphasis on the non-dual nature of reality.
As Islamic philosophy took root in Kashmir, it encountered the rich soil of Sanatan thought, leading to a fascinating synthesis. The Kashmiri Shavite poetess such as Lalla Ded and aboriginal Sufi Poet Sheikh Noor-ud-din Wali, exemplified this convergence. Their poetry, infused with the spirit of both Sanatan and Islamic traditions, celebrated the unity of existence and the pursuit of spiritual growth.
The collective consciousness of Kashmir has been shaped by this synthesis, which has become an integral part of the region's cultural DNA. The reverence for nature, the emphasis on spiritual growth, and the recognition of the divine in all things are common threads that bind the Sanatan and Islamic traditions in Kashmir.
The Shakti worshiping tradition, an integral part of Sanatan Dharma, has also influenced the Islamic practices in Kashmir. The veneration of sacred sites, such as the Sharada Peeth and the Hazratbal Shrine, reflects the blending of Sanatan and Islamic traditions. The Kashmiri Muslims' reverence for the goddess Sharada, for instance, is a testament to the enduring legacy of Sanatan Dharma in the region.
This convergence of philosophies has given rise to a unique spiritual tradition in Kashmir, one that emphasizes the unity of existence, the pursuit of spiritual growth and the recognition of the divine in all things. As the world grapples with the challenges of diversity and inclusivity, the Kashmir experience offers a beacon of hope, demonstrating that diverse philosophical traditions can converge and enrich each other.
In the words of the Kashmiri poet, Lalla Ded:
"My mother is the earth,
My father is the tree,
I am the child of both,
And I shall be forever."
This synthesis of Sanatan and Islamic thought in Kashmir is a testament to the region's enduring spiritual legacy, one that continues to inspire and guide seekers of truth and wisdom.
....
Daily Diary (DD) - Day 331 of 2025
0946hrs: Countdown to end of 2025: 35 days Still trying to overcome that first battle of the day, which is usually lost the night before. Ju...
-
2318hrs: Net connectivity was sporadic and almost absent throughout the day today, due to security measures to ensure the annual parade on t...
-
1415hrs: We will be using today's date to provide a documented timeline of content and communication generated with respect to the trans...